طلاق کی عدت: شریعت میں اس کی مدت اور حکمت

طلاق ایک سنگین اور اہم فیصلہ ہے۔ جو کسی بھی ازدواجی رشتہ میں آنے والی مشکلات اور اختلافات کے بعد لیا جاتا ہے۔ یہ دل و دماغ کے درمیان ایک لامتناہی جنگ چھیڑتا ہے۔ طلاق کے بعد ہر فرد کو اپنی زندگی کو نئے سرے سے سمجھنے اور اسے دوبارہ سے ترتیب دینے کا موقع ملتا ہے۔ اس میں دکھ اور ادھورے پن کے جذبات ہوتے ہیں۔ دو افراد جو کبھی ایک دوسرے کی زندگی کے ساتھی تھے۔ایک دوسرے کے بغیر جینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ طلاق ایک نئے سفر کا خاتمہ اور دوسرے سفر کا آغاز ہوتی ہے۔ لیکن دوسرے سفر کے آغاز سے پہلے عورت کو ایک خاص مدت خاص شرعی قواعد کے مطابق گزارنا ہوتی ہے۔ طلاق کی عدت کی مدت نہ صرف ایک اہم شرعی حکم ہے۔ بلکہ یہ خواتین کے حقوق اور ان کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ 

نیز عدت کا مقصد عورت کے لیے مختلف مسائل کا حل فراہم کرنا اور معاشرتی طور پر ایک مناسب طریقے سے طلاق کے اثرات کو ختم کرنا ہے۔ 

 طلاق کی عدت کیا ہے؟ 

طلاق کی عدت ایک مخصوص مدت ہے۔ جس دوران عورت کو نکاح ختم ہونے کے بعد دوبارہ نکاح کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اس مدت کا مقصد یہ ہے کہ عورت کے رحم میں کوئی بچہ ہو تو اس کا پتہ چل سکے۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی کہ شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق کے بعد ایک وقفہ آئے۔ تاکہ رشتہ ختم ہونے کے بعد دونوں اپنی زندگیوں میں استحکام لا سکیں۔ 

طلاق کی عدت کی مدت کتنی ہوتی ہے؟ 

طلاق کی عدت کی مدت کا انحصار عدت کی اقسام پر ہوتا ہے۔ اور یہ مختلف حالتوں میں مختلف ہو سکتی ہے۔ ہر صورت میں اس کا مقصد عورت کے حقوق کی حفاظت اور اس کے لیے ایک مناسب وقفہ فراہم کرنا ہے ۔تاکہ وہ طلاق کے بعد اپنی زندگی کو نئے سرے سے سمجھ سکے۔ اس لئے عدت کی مختلف اقسام میں مخصوص مدت مقرر کی گئی ہے۔ تاکہ ہر فرد کی صورتحال کے مطابق اس کی حفاظت کی جا سکے۔ 

۔ اگر عورت حاملہ ہو تو ایسی حالت میں عدت اس وقت تک رہتی ہے۔ جب تک عورت بچہ نہ جنے۔ 

۔ عورت غیر حاملہ ہو تو اس صورت میں طلاق کی عدت کی مدت تین حیض ہوتی ہے۔ یہ مدت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ کسی بھی ممکنہ حمل کا پتہ چل سکے۔ یہ حکم اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ 

اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں 

۳۔ اگر عورت کی ماہواری بند ہو چکی ہو تو ایسی صورت میں عدت تین ماہ کی ہوتی ہے۔ 

طلاق کی عدت کی ضرورت 

طلاق کی عدت کی مدت ایک اہم دینی حکم ہے۔ جس کا مقصد نہ صرف عورت کی صحت اور تحفظ کو یقینی بنانا ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی اس رشتہ کو ختم کرنے کے عمل کو مناسب طریقے سے انجام دینا ہے۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں۔ 

 ممکنہ حمل کا پتہ چلنا 

 عدت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عورت کے رحم میں کسی بچہ کا امکان ہو تو اس کا پتہ چل سکے۔ اور بچے کی شناخت درست ہو۔ اس کے ذریعے بچوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ 

فوری نکاح سے بچاؤ 

 عدت کی مدت عورت کو فوری دوبارہ نکاح کرنے سے روکتی ہے۔ تاکہ طلاق کا فیصلہ مکمل طور پر تصدیق ہو سکے۔ اور دونوں فریقین اپنی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لائیں۔ 

جذباتی استحکام 

 طلاق کے بعد کی عدت میں عورت کو معاشرتی، جذباتی اور روحانی طور پر استحکام حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ 

قانون کا احترام 

 طلاق کے بعد بھی شوہر اور بیوی کے درمیان ایک قانونی رشتہ قائم رہتا ہے۔ اور عدت کی مدت اس رشتہ کے احترام کا حصہ ہے۔  

شریعت کے مطابق عدت کے دوران بھی ایک دوسرے پرشوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض برقرار رہتے ہیں۔ ان حقوق و فرائض کی نوعیت طلاق کی اقسام پر منحصر ہے۔  

 رجعی طلاق کی صورت میں 

رجعی طلاق وہ ہوتی ہے جس میں شوہر عدت کے دوران رجوع کر کے نکاح کو بحال کر سکتا ہے۔ بغیر کسی نئے نکاح یا مہر کے۔ اس دوران شوہر اور بیوی کے درج ذیل حقوق و فرائض برقرار رہتے ہیں۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ عدت کے دوران بیوی کے رہائش، خوراک اور دیگر ضروریات پوری کرے۔ نیز دوران عدت عورت کو گھر سے نکالنا جائز نہیں۔ لہذا وہ اسی گھر میں رہے گی جہاں پہلے رہ رہی تھی۔ جب تک کوئی شرعی عذر نہ ہو۔  

طلاق رجعی میں شوہرعدت کے دوران بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے۔ لہذا اسے چاہئیے کہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے۔ اس دوران اگر شوہر اور بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہو جائے تو یہ خودبخود رجوع شمار ہوگا۔ اور طلاق ختم ہو جائے گی۔ 

طلاق بائن کی صورت میں 

طلاق بائن میں رجوع کا حق نہیں رہتا۔ لیکن  اگر عورت حاملہ ہو۔ تو شوہر پر لازم ہے کہ وہ عدت مکمل ہونے تک اس کا نفقہ فراہم کرے۔ غیر حاملہ ہونے کی صورت میں شوہر پر نفقہ لازم نہیں ہوتا۔ یکن بعض فقہاء کے مطابق اگر عورت کے پاس کوئی پناہ یا ذریعہ معاش نہ ہو تو نفقہ دینا مستحب ہے۔ بائن طلاق کے بعد عدت کے دوران ازدواجی تعلق جائز نہیں رہتا۔ اگر دوبارہ نکاح کرنا ہو تو نیا نکاح اور مہر لازم ہوگا۔ 

تین طلاق کی صورت میں 

اگر شوہر تین طلاق دے چکا ہو تو نہ رجوع ممکن ہوتا ہے۔ نہ ہی نیا نکاح بغیر حلالہ کے جائز ہوتا ہے۔ عدت کے دوران بھی شوہر پر نفقہ لازم نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ عورت حاملہ ہو۔  

ازدواجی تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق کی عدت کی مدت 

اگر نکاح کے بعد شوہر نے اپنی بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی۔ تو ایسی صورت میں عورت پر کوئی عدت لازم نہیں۔ جیسا کہ قرآن میں واضح فرمایا گیا ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَاۚ-فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا 

اے ایمان والو جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو۔ تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو۔ پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو اور بھلے طریق پر انہیں رخصت کر دو۔ 

سورہ احزاب

طلاق کی عدت کی مدت – ایک موقع اور آغاز 

طلاق کسی بھی وجہ سے ہو۔ خواہ مذہبی یا ثقافتی فرق کی وجہ سے دونوں کا ساتھ رہنا ممکن نہ ہو۔ مالی مشکلات، سمجھوتے کی کمی، جسمانی یا ذہنی تشدد، شادی شدہ جوڑوں میں بے وفائی یا کوئی اور سنگین مسئلہ ہو۔ بہتر ہے کہ میاں بیوی دونوں اپنے فیصلے پر غور کر کے بروقت درست فیصلہ کریں۔ تاکہ وہ اپنی زندگی میں سکون اور استحکام لا سکیں۔ طلاق کی عدت کی مدت کو ایک تحفہ سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ وقت مرد اور خاتون دونوں کو خود کو سمجھنے، اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ طلاق کی عدت کی مدت نہ صرف شرعی حکم ہے۔ بلکہ یہ خاتون کے لیے ایک نئی شروعات کا دروازہ بھی کھولتی ہے۔ 

عدت نہ صرف ایک اہم شرعی حکم ہے۔ بلکہ یہ عورت کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس کا مقصد خاندان اور معاشرتی استحکام کو بھی یقینی بنانا ہے۔ مزید، عدت کے دوران عورت کے لیے اپنی جسمانی اور جذباتی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کے نئے مرحلے کے لیے تیار ہو سکے۔ اس دوران شوہر اور بیوی کے درمیان کسی بھی ممکنہ تعلق کی اصلاح کی امید بھی رہتی ہے۔ جو کہ ایک نیا آغاز ہو سکتا ہے۔ طلاق کی عدت کی مدت نہ صرف ایک شرعی حکمت عملی ہے۔ بلکہ یہ معاشرتی ذمہ داری بھی ہے۔ جو ایک صاف اور شفاف طریقے سے رشتہ کے اختتام کے اثرات کو کم کرتی ہے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *